RECENT

Imran Khan cancels Intra-party elections to focus on Raiwind march 9:40PM PST

Wednesday, 2 March 2016

 

  اسلام اور پردہ



پردے کا لٖٖغوی مفہوم ہے گھونگٹ ، اوٹ ، چھپانا، بھید وغیرہ۔یہ لفظ عربی زبان میں حجاب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔پردے کا دین اسلام میں واضح حکم دیا گیا ہے۔ اسلام سے پہلے عرب میں پردہ نہیں کیا جاتا تھا جسکی وجہ سے عربِ معاشرہ بے شمار اخلاقی برائیوں کا شکار تھا۔ابھی بھی جس معاشرے میں بے پردگی ہے وہاں بے شمار اخلاقی ،معاشرتی بیماریاں موجود ہیں۔اسوقت دنیا میں قتل و غارت کے جتنے بھی واقعات کے پسِ منظر میں کہیں نہ کہیں بے پردگی سبب ہوگی۔’’اسلام نے عورت کا اصل مقام اسکا گھر قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی آیات مبارکہ ہے تم اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ ٹک کر رہو۔ الا حزاب ۳۳
آیات مبارکہ کی تائید نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے۔عورتوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ساری فضیلت تو مرد لے گئے وہ جہاد کرتے ہیں ہم کون سا عمل کریں کہ مجاہدین کے برابر اجر و ثواب حاصل کریں تو آپ ﷺ نے جواب دیا:تم میں سے جو گھر بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی۔
اسلام نے عورت کو مرد سے نرم لہجے میں بھی بات کرنے سے منع کیا ہے۔مرد سے ضرورت کے تحت بات کرنا منع نہیں مگر ایسا لہجہ اور اندازِ گفتگو اپنانا چاہیئے کہ جس سے سننے والے کے دل میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ قرآن پاک کی سورہ ا لاحزاب کی آیات نمبر ۳۲ میں ہے :’’ اے نبیﷺ کی بیویو!تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔اگر تم خدا سے ڈرنے والی ہو تو نرم آواز میں بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی میں کوئی شخص لالچ میں پڑجائے بلکہ صاف اور سیدھی بات کرو۔‘‘اس آیات مبارکہ میں حکم صرف ازواج مطہرات کیلئے نہیں بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لئے حکم ہے کیونکہ نبی کریمﷺ کی از واج مطہرات تمام مسلمان عورتوں کیلئے قابلِ تقلید نمونہ ہیں۔
ایک اور جگہ قرآن کریم میں آتا ہے: وہ اپنے زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ انہوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے انکا علم لوگوں کو ہوجائے ۔‘‘ دورِ جاہلیت میں عورتیں جب لوگوں کے پاس سے گزرتی تھی تو اپنے پاؤں زمین پر زور سے مارتیں جس سے انکی پازیب کی جھنکار پر لوگ متوجہ ہو جاتے۔ اسلام نے عورت کو اس طرح کے تمام کام کرنے سے منع کردیا ہے جس سے نامحرم اس کی طرف متوجہ ہوں، اس میں خوشبو وغیرہ ۔مسلمان عورت پر پردہ واجب ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رہیں‘‘۔ (النور ۳۱)۔حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور مدینہ کی عورتوں نے اسے سنا تو ہر ایک اٹھی ، کسی نے اپنا کمر پٹہ کھول کر،کسی نے چادر اٹھا کر فوراََ اسکا ڈوپٹہ بنایا اور اوڑھ لیا۔ دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت جتنی بھی عورتیں مسجدِنبویﷺ میں داخل ہوئیں سب ڈوپٹے اوڑھے ہوئے تھیں۔
پردے کے تین درجات ہیں:
اول درجہ: جو اصل مطلوب شرعی ہے وہ حجاب مردوں سے ہے کہ عورتیں اپنے گھر میں رہیں لیکن شریعتِ اسلامیہ ایک جامع اور مکمل نظام ہے جس میں انسان کی تمام ضروریات کی رعایت پوری کی گئی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ عورتوں کو ایسی ضرورتیں پیش آنا نا گزیر ہے جب وہ کسی وقت گھروں سے نکلیں۔
دوسرا درجہ: قرآن و سنت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ سر سے پاؤں تک برقع یا لمبی چادر میں پورے بدن کو چھپا کر نکلیں راستہ دیکھنے کے لئے چادر میں سے صرف ایک آنکھ کھولیں یا برقع میں جو جالی آنکھوں کے سامنے استعمال کی جاتی ہے وہ لگائیں۔
تیسرا درجہ: ایک تیسرا در جہ بھی بعض روایات سے مفہوم ہوتا ہے کہ جس میں فقہائے امت کی راہیں مختلف ہیں اور وہ یہ کہ عورتیں جب ضرورت کے تحت گھروں سے باہر نکلیں تو وہ اپنا چہرہ ہتھلیاں بھی لوگوں کے سامنے کھول سکتی ہیں بشرطیکہ سارا بدن مستور ہو۔
قرآنِ پاک میں سورہ النور کی آیات نمبر ۳۱ میں آتا ہے کہ :’’ وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر، باپ ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے ، بھائی ، بیٹے ، بھتیجے، بھانجے، اپنی عورتیں، اپنے مملوک جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوں‘‘۔ جس معاشرے میں پردہ رائج ہوتا ہے وہاں زنا اور دوسری اخلاقی برائیاں نہیں پائی جاتیں۔


No comments:

Post a Comment