RECENT

Imran Khan cancels Intra-party elections to focus on Raiwind march 9:40PM PST

Thursday 18 February 2016

کوئی ہے جو عورتوں پر بار بار تشدد ہونے سے انکو بچائے؟        
یہ درست ہے کہ آج لڑکی کی پیدائش ماضی کی طرح ایک حادثہ نہیں رہی۔لیکن اب بھی متوسط گھرانوں میں اوسط شکل و صورت کی لڑکیوں کے لیے زندگی کسی سانحے سے کم نہیں۔ہوش سنبھالتے ہی لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے انکی زندگی کا اصل مقصد شادی ہے۔ انکو بچپن سے ہی یہ یقین کرایا جاتا ہے کہ لوگوں خصوصاََ صنفِ مخالف کے معیار پر پورا اترنا اور خوبصورت نظر آنا عورت کی مجبوری ہے۔’’لوگ کیا کہییں گے، اگلے گھر جاکر ناک کٹواؤ گی، زور سے نہ ہنسو، دھیمے لہجے میں بات کرو، جھک کر چلو‘‘ ایسے ہی لاتعداد جملوں اور غلط رویوں سے لڑکیوں کو بے انتہا غیر محفوظ کردیا جاتا ہے۔اور وہ زندگی کے ہر معاملے میں خود کو منوانے کے لیے دوسروں کی قبولیت اور خوشنودی کی محتاج نطر آتی ہیں۔
ٓٓٓ آج لڑکیوں کی اکثریت کا سب سے بڑا مسئلہ اچھے ’’بر‘‘ کا حصول ہے۔ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں عورت دوسرے درجے کی مخلوق سمجھی جاتی ہے۔ جو نہ پسندیدگی کے اظہار کا حق رکھتی ہے اور نہ محبت کا کیونکہ اسکا ہر عمل مرد کی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔اس معاملے میں لڑکے والوں کا رویہ بے لگام حکمرانوں کا سا نظر آتا ہے۔اکثر لڑکوں کی مائیں رد کی جانے والی لڑکیوں کی تعداد اس فخر سے بیان کرتی ہیں گویا میچ کا اسکور بتارہی ہوں۔’’اے سن‘ ‘ میں تو اپنے بیٹے کے لیے چاند سی بہو لاؤں گی۔اب تک سو سے زیادہ لڑکیاں دیکھ چکی ہوں پر کیا کروں کوئی پسند ہی نہیں آتی۔اس سے قطع نظر کہ مشرق کے مرد کس قدروجیہہ ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کے حسن کا معیار دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔پریوں کی تلاش میں نکلنے والے اکثر لڑکے کی مائیں آئینہ دیکھنا بھول جاتی ہیں۔ انہیں اپنے بیٹے کے لئے ایک شریکِ سفر کی بجائے ایک ایسے حسین بت کی تلاش ہوتی ہے۔ جسکا قد نکلتا ہو، میدہ جیسی سفید رنگت،کشادہ پیشانی اور آنکھیں ترکش ہوں۔اسکے علاوہ گرین کارڈ وہ اضافی خصوصیت ہے جو شادی کی منڈی میں لڑکی کی قیمت بڑھادیتی ہے۔ عورتوں کے طبقے کے لیے اعلی تعلیم اور ملازمت وہ عیب سمجھے جاتے ہیں جنہیں اچھے خاصے پڑھے   لکھے گھرانوں میں بھی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔کیونکہ اکثر لوگوں کے نزدیک علم عورت کو خودسر اور اپنی کمائی خودمختار بنادیتی ہے۔ان جیسے لوگوں کے نزدیک جس قدر حسین ،کم عمر اور کم عقل ہو، زندگی اتنی ہی اچھی گزرتی ہے

اکثر لڑکی دیکھنے کے لیے آنے والوں کا رویہ کسی قصائی سے کم نہیں ہوتا۔ نظروں ہی نظروں میں لڑکی کے سراپے کو یوں جانچا، تولا جاتا ہے جیسے قربانی کے لیے گائے خریدی جا رہی ہو۔ پسند نہ آئے تو چہرے پر ایسے ناگوار تاثرات ابھرتے ہیں کہ آگے کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔درجنوں گھر گھومنے ،ضیافتیں اڑانے کے بعد کہیں جاکر حور پری کا انتخاب تو ہو جاتا ہے لیکن دوسری طرف چبھتے ہوئے سوال، نظریں، رویے اور بار بار مسترد کئے جانے کی تکلیف کتنی ہی لڑکیوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اسکا اندازہ صرف وہی کر سکتا ہے جو اس عمل سے گزرا ہو۔یہ درست ہے کہ وقت گزرنے کہ ساتھ لڑکی والوں کا رویہ بھی منفی ہوتا جارہا ہے۔لڑکیاں شریف شریکِ سفر کی بجائے ہیرو کی تلاش میں نظر آتی ہیں اور والدین خاندان، شرافت اور تعلیم کے بجائے بینک بیلنس،گاڑی اور بنگلے میں رہنے والے داماد کو ترجیح دیتے ہیں۔ہمارے ہاں منافقت کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرلے تو انکو بے حجاب سمجھا جاتا ہے۔ 

شادی کے حوالے سے میں یہاں پر کچھ ماہرین نفسیات ڈاکٹر کے بارے میں بتانا چاہوں گی کہ انکا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے پاس آنے والے ایسے کیسوں کی تعداد میں دن بھر دن اٖضافہ ہوتا جارہا ہے جن میں خواتین کی اکثریت شادی نہ ہونے ، منگنی ٹوٹنے محبت میں ناکامی ، طلاق کے بعد شدید مایوسی، ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں اور ان میں تو کچھ عورتیں تو ایسی صورتوں میں ہیں کہ وہ خودکوشی جیسے انتہائی قدم اٹھانے سے بھی نہیں ڈرتی۔بہت سی خواتین جارحانہ رویہ اختیار کر لیتی ہیں ، جو ہر وقت دوسروں کا مزاق اڑاتی رہتی ہیں، یا شکوہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

ایک اچھے جیون ساتھی کے انتخاب کا حق سب کو ہے۔لیکن ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں کہ جہاں پر یہ انتخاب کا حق صرف مرد وں کو ہے۔لڑکیوں کو محض شکل و صورت اور لڑکوں کو مال و حیثیت کی کسوٹی پر ہی کیوں پرکھا جاتا ہے ؟ مویشیوں کی طرح ڈرائنگ روم میں بار بار بیٹیوں کی نمائش کرنے اور انہیں مسترد کرنے کی روایت کیوں پروان چڑھائی جا رہی ہے؟میں آج کی پڑھی لکھی نوجوان نسل سے پوچھتی ہوں کہ کیا ان میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ اس پرانی روایت کے خلاف آواز بلند کرے اور اپنے عمل سے مثبت مثالیں قائم کرے۔ کاش! ہم صدیوں سے چلتی آئی ہوئی روایت سے پہلے سمجھ جائیں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لفظ شادی خوشی کے بجائے لڑکیوں کے لیے غم کی علامت بن جائے۔اور وہ مایوسی کے اندھیروں میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جائیں۔

No comments:

Post a Comment